اسکول سے چھٹی ہوئی۔ اس نے چاک واپس میز پر رکھی' اپنی کتابیں سمیٹیں اور واپسی کے راستے پر قدم دھر دیے۔ یہ گاؤں کا اکلوتا پرائمری اسکول تھا جو فصلوں اور سبزے سے گھرا ہوا تھا' جس کے لان میں سفیدے کے درخت اور سرخ سرخ پھولوں والی بوٹی اگی ہوئی تھی ' اس نشیبی سے لان میں جب پانی بھرتا تھا برسات کے دنوں میں تو وہ کاغذ کی کشتیاں تیرایا کرتی تھیاور اس تالاب میں چھلانگیں لگاتے ہوۓ مینڈکوں کو دیکھتی رہتی تھی اور اس لان میں نتیجے کا اعلان ہوا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ پہلے نمبر پر آتی تھی اور تعریفیں سمیٹ کر اور انعامی کاپی لیے گھر روانہ ہوتی تھی۔ وہ زہین ترین ہونے کے ساتھ سب سے غریب گھر سے بھی تھی۔باپ راج مزدوراور ماں کھیتوں میں مزدوری کرتی تھی۔ وہ اور یاسمین دونوں گھر کی طرف چل دیں۔
یاسمین کی امی نے اس کا استقبال کیا اور فورا نلکے سے ٹھنڈا پانی لا کر لال شربت بنانے لگیں۔ اس کے گھر میں ہمیشہ کی طرح ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ گھر میں کسی زی روح کا نام و نشان نہیں تھا۔ گندم کے سٹوں سے صحن اٹا پڑا تھا جو دھوپ لگنے کو ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے اور خالی برتن منہ کھولے پڑے تھے۔
اس نے بستہ رکھا' بھاری بستے کی وجہ سے کندھے تھک چکے تھے' مگر ابھی گھر کا سارا کام نبٹانا باقی تھا۔ اس نے کونے میں پڑی جھاڑو اٹھائی اور کچے صحن میں گرد کا طوفان اڑنے لگا۔ گندم کے سارے سٹوں کو اکھٹا کیا۔ سارے گھر میں جھاڑو دی پھر سارے برتن اکٹھے کر لیے۔ اس گھر میں غربت کا یہ عالم تھا کہ پانی بھی نہیں تھا۔ نلکا کب سے خراب تھا' مگر بنانے والے پیسے مانگتے ہیں' اور پیسے ابھی تھے ہی نہیں۔
اس نے برتنوں کا ڈھیر سر پر اٹھا یا اور قریب کے ٹیوب ویل پر چلی گئی۔ سرف سے برتن چمکانا اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ نجانے کب سے سیکھ چکے تھے۔ برتن لا کر چولہے پر رکھے اور سٹوں کے نیچے سے گری' بھری ہوئی گندم کے دانے چھان پھٹک کر دوپٹے میں ڈالے اور دکان کا رخ کیا۔ دانے پندرہ روپے کے ہوۓ تھے۔ چھ روپے کے آلو پیاز اور پانچ روپے کا دستہ' ایک روپے کا قلم' تین روپے واپس لا کر اندر کمرے میں رکھ آئی۔ آلو کاٹ کے چولہے پہ رکھے اور خود ہوم ورک کرنے لگی۔
سارے بہن بھائی چھوٹے تھے' وہ بھی چھوٹی تھی ' مگر سارا گھر اسی نے سنبھال رکھا تھا کیوں امی امرود ' بیر وغیرہ ٹوکریوں میں بھرنے کا کام کرتی تھیں۔